
محکمہ دفاع ’ پینٹا گون‘ کا کہنا ہے کہ کہ مستقبل میں معلومات کی لیک کو روکنے کے لیے کمپوٹر نظام کو مزید محفوظ بنایا جا رہا ہے۔
ان معلومات میں سے پندرہ ہزار چھ سو باون کو خفیہ معلومات کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ اب تک وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر دو سو بیس پیغامات شائع کیے ہیں جبکہ ویب سائٹ کی جانب سے نیویارک ٹائمز اور گارڈین سمیت پانچ میڈیا گروپس کو پہلے ہی تمام پیغامات کی نقول فراہم کر دی گئی ہیں۔
برطانیہ کا بھی کہنا ہے کہ ان فائلوں کی اشاعت قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ان معلومات کا افشا کیا جانا ایک ’لاپرواہی‘ تھی اور اس سے سفارتکاروں اور دیگر افراد کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔
امریکی کانگریس کے ایک ری پبلکن رکن نے وکی لیکس کو ’دہشتگرد تنظیم‘ قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ’اس قسم کے انکشافات ہمارے سفارتکاروں، خفیہ اہلکاروں اور ایسے افراد کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں جو جمہوریت کے فروغ میں مدد دینے کے لیے امریکہ آتے ہیں۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’صدر اوباما امریکہ اور دنیا بھر میں ذمہ دار اور قابلِ مواخذہ حکومتوں کے حامی ہیں لیکن یہ لاپرواہ اور خطرناک اقدامات اس مقصد کے مخالف ہیں‘۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے رکن پیٹر کنگ نے کہا ہے کہ تازہ انکشافات وکی لیکس کے مالک کی ’دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان سے عراق اور افغانستان میں اتحادی افواج کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے‘۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک سابق اہلکار ایرون ملر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان انکشافات سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے تعلقات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ کوئی بھی وکی لیک بنیادی یا ڈرامائی طور پر امریکہ اور اس کے مشرقِ وسطٰی یا دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے اتحادی ممالک کے باہمی تعلقات کو تبدیل نہیں کر سکتی‘۔
برطانوی دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں ان انکشافات کو قومی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دیا ہے جبکہ وزارتِ دفاع نے اخبارات کے مدیران پر زور دیا ہے کہ وہ معلومات شائع کرتے ہوئے ’ان کے قومی سلامتی پر پڑنے والے اثرات کو مدِنظر رکھیں‘۔
برطانوی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے ان پیغامات کی اشاعت کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ حکومتیں کسی راز کے راز رہنے کی بنیاد پر کام کر سکیں۔