پاکستان میں تحریک طالبان کی کاروائیوں سے جس قدر خطرہ ملک کے ریاستی ڈھانچے کو ہے اتنا ہی ان معتدل مذہبی قوتوں کو بھی ہے جو اپنا مذہبی ایجنڈا آمریت سے اتحاد کی بجائے جمہوریت کے ذریعے آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمیعت علماء اسلام کا شمار پاکستان میں جمہوریت پسند مذہبی قوتوں میں سرفہرست تھا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سن دو ہزار دو میں متحدہ مجلس عمل کے قیام اور انتخابات میں ملک کے شمالی صوبے میں اس کی واضح اکثریت میں پاکستان کی فوجی قیادت کا بڑا ہاتھ تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن بی بی سی کے بش ہاؤس سٹوڈیو میں
لیکن اس تجزیے کے خالق کرداروں نے شاید یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب معتدل مذہبی قوتیں بھی طالبان کے سامنے اٹھ کھڑی ہونے کو تیار ہونگی۔ مشرف دور میں وفاق اور صوبوں میں کام کرنے والی منتخب مذہبی جماعتوں نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ثابت کر دیا کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے یا حکومت سے باہر کسی بھی طور پر کھلم کھلا طالبان سے ٹکر لینے پر ہرگز تیار نہیں۔
طالبان کی جانب پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی اس پالیسی کی ایک واضح مثال جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ بی بی سی کے ساتھ اس انٹرویو میں طالبان سے مقابلہ تو دور کی بات، مولانا ان کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔۔۔