آنے والا وقت مشکل ہے: اوباما

صدر اوباما کا طیارہ بگرام پر اترا
امریکہ کے صدر براک اوباما نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں با معنی پیش رفت کے باوجود افغانستان میں آنے والا وقت مشکل ہوگا۔
یہ بات انہوں نے افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے کے دوران بگرام کے ہوائی اڈے پر امریکی فوجوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔امریکی صدر افغانستان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت کررہے ہیں جب وائٹ ہاؤس میں صدر اوباما کی نیشنل سکیورٹی ٹیم نے افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد میں اضافے کے بعد افغان پالیسی کا جائزہ لیا ہے اور اب وہ اس سے متعلق رپورٹ جاری کرنے والی ہے۔
امریکی صدر نے اپنے ملک کے فوجیوں سے کہا کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ ’یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ پیش رفت بہت آہستہ ہوتی ہے۔ آنے والا وقت اور مشکل ہے۔ کامیابی کے لیے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے طبلِ جنگ پر لبیک کہا ہے۔‘
امریکی صدر براک اوباما کا افغانستان کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ اس سے پہلے وہ مارچ کے مہینے میں افغانستان آئے تھے۔ انہوں نے امریکی فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان پسپا ہورہے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی فوجیں ایک اہم ذمہ داری نبھارہی ہیں۔ ’دنیا کا یہ حصہ عالمی کوششوں کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں ہم القاعدہ کو منتشر، غیرمحفوظ اور شکست سے دوچار کرنے والے ہیں، اور ان کے شدت پسند ساتھیوں کو بھی، اور اِسی لیے آپ یہاں پر ہیں، اور اِسی لیے آپ کا مشن انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسی لیے آپ کو کامیاب ہونا ہے۔ کیونکہ یہ کوشش اپنے ملک میں بسنے والے لوگوں کی حفاظت اور افغان عوام کی عظمت کے لیے ہے، جو استبداد میں رہتے ہوئے زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔‘
ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ گزشتہ ماہ کانگریس کو دی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد کارروائیوں اور جھڑپوں میں، سنہ دوہزار سات کے مقابلے میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف پیش رفت ناہموار ہے۔
توقع ہے کہ امریکی صدر اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی سے ملاقات کے دوران افغانستان کے معاملات پر بات چیت کریں گے۔ تاہم وہائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ خراب موسم کی وجہ سے امریکی صدر کابل نہ جاسکیں اور وہ حامد کرزئی سے فون پر ہی بات کریں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے افغان اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ہے۔ صدر حامد کرزئی، امریکی فوجی حکمتِ عملی کے بارے میں شکایت کرچکے ہیں جبکہ انہوں نے اگلے سال جولائی سے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔