’اغوا کرنے والے عرب معلوم ہوتے تھے‘

عبدل خالق فراحی دو سال اور دو ماہ تک مغوی رہے
پشاور سے کلِک اغوا ہونے اور دو سال تک مغوی رہنے والے سابق افغان قونصل جنرل عبدل خالق فراحی نے افغان ٹیلی ویژن پر ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ ان کو اٹھانے والے فوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور ان لوگوں کے کمانڈر اور سینئیر اہلکار عرب معلوم ہوتے تھے۔
عبد الخالق فراحی کو ستمبر 2008 میں پشاور سے اغوا کیا گیا تھا اور انہیں گزشتہ ماہ افغانستان کے صوبہ خوست میں افغان حکام کے حوالے کیا گیا۔رہائی کے بعد سفارتکار نے افغانستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر تئیس نومبر کو نشر ہونے والے ایک خصوصی انٹرویو میں اپنے اغواء اور حراست کی تفصیل بتائی۔
جب وہ اندر آتے تھے تو وہ نقاب پوش تھے۔میں نے ان کے چہرے نہیں دیکھے۔ وہ القاعدہ کے تھے، غیر ملکی تھے۔ مجھ سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ تمام گارڈ عرب تھے، شاید مراکش سے تھے
’جب میں دفتر سے نکلاہوں تو حیات آباد کے تین نمبر فیز میں ایک ٹویوٹا سیڈان ہماری طرف آئی اور ہماری گاڑی سے ٹکرانے والی تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی بچا لی۔ میں نے اسے احتیاط سےگاڑی چلانے کو کہا تو اس نے جواب دیا کہ ’میرا قصور نہیں تھا ، وہ ہماری گاڑی سے ٹکرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ یہ بول ہی رہا تھا کہ اس ٹویوٹا سیڈان نے ہماری گاڑی کو مار کر اسے سائڈ کی سڑک پر رکوا دیا۔‘
’فوج کی وردیوں میں ملبوس پانچ یا چھ لوگ اس ٹویوٹا سے کود کر ہماری طرف آئے۔ ڈرائیور گاڑی سے نکلا تو شاید سمجھے کہ وہ میں ہوں کیونکہ اس نے سوٹ پہن رکھا تھا۔ لیکن پھر انہوں نے مجھے پیچھے بیٹھے ہوئے دیکھا تو انہوں نے میرے ہاتھ پیر پکڑ کر اپنی گاڑی میں منتقل کر دیا۔ پہلے میں سمجھا کہ یہ فوجی اہلکار ہیں لیکن پھر میں نے غور کیا کہ انہوں اپنے چہرے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دہشت گرد ہیں‘۔
’میں نے اپنے ڈرائیور کو آخری مرتبہ دیکھا تو وہ فون ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر مجھے گولیاں چلنے کی آؤاز آئی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے اسے شہید کر دیا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔‘
’اغواکاروں نے مجھ سے میری گھڑی اور میرا بٹوہ لے لیا۔ میری جیبیں خالی کروائیں۔ ٹکر کی وجہ سے گاڑی میں کوئی مسئلہ ہو گیا تھا تو وہ صحیح نہیں چل رہی تھی۔ انہوں نے آپس میں بات کی کہ ’دوسری گاڑی میں ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ آجائیں‘۔ لیکن پھر گاڑی ٹھیک ہو گئی۔ گاڑی رِنگ روڈ پر پندرہ بیس منٹ تک چلتی گئی، اور پُل والے چوراہے پر پہنچی۔‘
انٹرویو کرنے والے ٹی وی صحافی نے عبدالخالق فراحی سے پوچھا کہ کیا آپ دیکھ سکتے تھے کہ وہ آپ کو کہاں لے جا رہے تھے؟
’رنگ روڈ پر پُل تک میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ لیکن پُل کے بعد انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ میں ان سے پوچھ رہا تھا تم کون ہو؟ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ جس پر وہ غصہ ہو گئے، مجھے رائفل کے بٹ سے مارا اور پھر آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ لیکن پُل تک میں دیکھ سکتا تھا۔ گاڑی کے کالے شیشے تھے، پولیس سڑک کے پاس کھڑی تھی لیکن انہوں نے اس گاڑی پر کوئی توجہ نہیں دی۔میں نے اپنے ڈرائیور کو آخری مرتبہ دیکھا تو وہ فون ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر مجھے گولیاں چلنے کی آؤاز آئی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان لوگوں اسے شہید کر دیا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے
آپ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا گیا؟
دوران حراست انہوں نے میری جگہ سترہ مرتبہ بدلی۔ میں دو سال اور دو ماہ تک ان کی حراست میں رہا۔ پہلے چھ مہینوں میں انہوں نے مجھ پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کیا۔ وہ لوگ بار بار مجھ پر الزام لگاتے کہ تم امریکہ کے لیے کام کرتے ہو یا تم امریکیوں کو افغانستان لے کر آگئے ہو، وہ کہتے تھے کہ تم امریکی ایجنٹ ہو، تم منحرف ہو، تم کو مارنا تو جائز ہے۔وہ رات کو پیروں پر بیڑیاں لگا دیتے تھے لیکن دن کے وقت کھول دیتے۔ کھانا اچھا دیتے تھے۔ جو وہ کھاتے وہ ہی مجھے کھلاتے۔کمرے کے اندر آنکھوں پر پٹی بھی نہیں باندھتے تھے۔
جب وہ اندر آتے تھے تو وہ نقاب پوش تھے۔وہ القاعدہ کے غیر ملکی تھے۔ مجھ سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ تمام گارڈ عرب تھے، شاید مراکش سے تھے۔
دوران حراست انہوں نے میری جگہ سترہ مرتبہ بدلی۔ میں دو سال اور دو ماہ تک ان کی حراست میں رہا۔ پہلے چھ مہینوں میں انہوں نے مجھ پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کیا۔ وہ لوگ بار بار مجھ پر الزام لگاتے کہ تم امریکہ کے لیے کام کرتے ہو یا تم امریکیوں کو افغانستان لے کر آگئے ہو۔