تنہاءی میں بیٹھ کر ایک کونے میں اس شخص کے بارے میں سوچ رہا تھا جوجاتے وقت کہتا تھا کہ "رخصت اف اوار ان سنگت" لیکن وہ رخصت کیے بغیر ہمیشہ کے لیے کچھ اس ادا سے بچھڑ گیا کے رت ہی بدل گءی ، وہ شخص ایک پورے کارواں کو ایک قوم کو اداس کر گیا ۔ دل میں ان کی جداءی پر ایک چھبن سی محسوس ہورہی تھی یادوں کی سمندر میں غوطہ زن ہو گیا ان کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد آیا ، جب ہم مایوس ہوتے تو وہ ہمیں بٹھاتے اور سیاہ چاءے کی پیالی تھماتے اور امید بندھاتے ، ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہو ، کون اس کی جگہ لے گا؟ دل ہی دل میں خود سے سوال کیا تب خود ہی برجستہ دل بیقرار کو خود جواب دیا کے کوءی نہیں اس کی جگہ لے سکتا ۔ کہاں سے ڈھونڈ کر لاءے گے ہم تجھے اب ؟

اسی سوچ میں غلطاں تھے کہ ان کی آواز اچانک کانوں سے ٹکراءی کے رخصت اف اوارن سنگت ۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے درد کے جس کا پیمانہ نہ تھا جداءی کے احساس کا دکھ جو مسلسل طویل ہوتا جارہا تھا۔

ایک مرتبہ پھر وہی آواز سناءی دی گویا وہی شخص مجھ سے مخاطب ہو مگر کیسے وہ تو بچھڑ چکا ہے لیکن کہتے ہیں کہ جو لوگ ایک مقصد کے لیے جان دیتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ ہر جگہ اپنے عظیم مقصد کے ساتھ آپ کو ملتے ہیں ۔ لیکن یوں لگا کہ شاید میں اس انسان کے بارے میں مسلسل سوچ رہا ہوں اسی لیے ان کی آواز مجھے سناءی دے رہی ہے یہ میرا وہم ہے ۔

لیکن پھر وہی آواز سناءی دی نرم لہجے میں کہ " غم کپبو زیبا منزل خڑک ء" ۔

تب برجستہ کہا کے سنگت کہاں ہو آپ ایک ایسے وقت میں ہمیں چھوڑ کر چلے گءے جب آپ کی ہمیں سخت ضرورت تھی ۔

تب ایک سرد آہ بھری اور کہا سنگت اس سے زیادہ ایک انسان کی خواہش کیا ہوتی ہے کہ وہ اپنے قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کرے اور اپنے وطن کو آزاد ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے لیکن جیسے کے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس راہ کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہاں ہر وقت موت سے بغل گیر رہنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے اور موت تو ایک تلخ حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ زندگی اپنے قوم کے لیے اگر گذارے انسان تو پھر اسے بخوشی موت کو گلے سے لگانا چاہیے کیونکہ اس نے جو زندگی گذاری وہ فضول نہیں گذاری بلکہ ایک فکر کے تحت ایک مقصد کے لیے ، انسان کے سر کو قلم کرکے زندہ خیالوں کو نہیں مارا جاسکتا ۔ پھر ہمیں چے گویرا کے یہ الفاظ بھی اچھی طرح یاد ہیں کہ موت ہمیں جہاں بھی آلے ہم اس کا مسکرا کر



استقبال کریں بشرطیکہ ہمارے مقصد کو آگے لے جانے کے لیے دیگر ساتھی موجود ہوں ۔

پھر شہیدوں کے خون سے روشنی کی جو سوتیں پھوٹتی ہیں وہ پورے قوم کے لیے راہیں روشن کردیتی ہے اور شہید کی قربانیوں کو تمام عمر یاد رکھا جاتا ہے۔ ان کی سنجیدگی اور شعور پر فخر کیا جاتا ہے ان کا عمل تجربے کی صورت میں آنے والی نسلوں کی رہنماءی کرتا رہے گا اور شہیدوں کی قربانیاں انہیں اس منزل کی جانب قدم بڑھانے پر مجبور کریں گی جسے آزادی

کہتے ہیں ۔



پھر وہ خاموش ہوگءے ، پوچھا بتاءو کیسا ہے میرا بلوچ کیسا ہے میرا بلوچستان ؟ وطن کی جڑی بوٹیوں سے لے کر قوم کے ہرفرد کا خاص خیال رکھنا اور خیال رکھنا کے ان کو کوءی ستاءے نہیں ۔

آج ایک سخت گھڑی قوم پر آءی ہے تکالیف اور دکھوں کا شکار ہیں لیکن یہ دن بدلے گے اور عظیم بلوچ قوم کے عظیم نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا اس قوم کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہوگی تحریک میں اپنا سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا ، شعور کے ساتھ پختگی کے ساتھ ایک قوم بننے کا احساس جو پیدا ہوا ہے اسے عملی شکل دینا ہوگا اور جب ہم ایک قوم کی حیثیت سے لڑیں گے تو پھر فتح ہماری ہوگی اور یہی تو شہیدوں کے ارمانوں کی تکمیل ہے ۔

تب میں نے پوچھا کے بابو لیکن قوم تو تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ؟

تب ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوءے کہ

گروہانہ سوچ اس قدر حاوی ہوچکی ہے کہ ایک قوم بننے کے احساس کو فروغ دینے کی بجاءے ہم اس قوم کے زخمی وجود پر مزید وار کر رہے ہیں اور دشمن کو یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ آءے اور ہمیں مزید نقصان پہنچاءے ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ایک قوم بننا ہے۔ جب بھی کچھ ساتھی لیڈر پرستی او شخصیت پرستی کا شکار ہوکر کہتے کہ عطا اللہ مینگل و میر غوث بخش بزنجو غدار ہے تب میں بالکل اکتا جاتا اور کہتا کہ اگر ہم مخلص ہے تو پہلے ہمیں اپنے عمل کا جاءزہ لینا چاہیے کہ ہم بلوچ قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں اگر ہم مخلص ہیں تو ہمیں قوم کے مفاد میں جدوجہد کرنی چاہیے ہر وہ ذریعہ اپنا نا چاہیے جو ہمیں ایک قوم بناتا ہے جو ہمیں آزادی دلاتا ہے ، کون غدار ہے اور کون مخلص یہ فیصلہ تاریخ کرے گی بلوچ قوم کرے گی اگر ہم نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنے فکری اور علاقاءی مخالفین کو غدار قرار دینے میں صرف کردی تو پھر ہم خود نہ صرف بلوچ تحریک کو بلکہ بلوچ قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گے ۔ ہاں اگر کوءی بلوچ قومی مفاد کے سامنے بالکل کھڑا ہوجاتا ہے تو پھر بلوچ تنظیمیں موجود ہیں اور وہ مکمل تحقیق اور ثبوت کے ساتھ ان کے خلاف کارواءی کا حق رکھتی ہیں لیکن کسی کو غدار قرار دینا انفرادی خواہش یا فکری اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔

آج کا وقت تقاضہ کر رہا ہے کہ ایک قوم بن کر جدوجہد کی جاءے اب تک ہم گروہوں میں تقسیم ہیں اور اس مرحلے تک ہم اپنی شعور اپنی جدوجہد اپنی قربانیوں اپنی کامیابیوں اپنی غلطیوں کی بدولت پہنچے ہیں ۔ ہمیں کسی چیز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام چیزوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوءے قوم کو متحد کرتے ہوءے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے ہمیں اپنی غلطیوں کو قطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ہمیں اپنی غلطیوں کو زیادہ سے زیادہ زیر بحث رکھنا چاہیے تاکہ ان غلطیوں کو رفع کیا جاءے ان سے سیکھا جاءے اور ان کو دہرایا نہیں جاءے آزادی حاصل کرنے کی راہ میں حاءل سب سے بڑی رکاوٹ اس کی کمزوریاں ہوتی ہیں اور تقسیم در تقسیم رہنا سب سے بڑی کمزوری ہے ۔